حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کے ساتھ انٹرویو میں میڈیا کی محقق اور لیکچرر ڈاکٹر معصومہ نصیری نے دین اسلام میں خواتین کے بلند مقام اور مغربی میڈیا میں ان کے کردار کے مابین فرق پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے میڈیا کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: مغربی تہذیب میں میڈیا کا کام صرف ان کے اپنے منصوبہ بندی شدہ اہداف کو اپنے انداز سے بیان کرنا ہے جو فقط انسان کی خواہشات اور لذت کو اولین حیثیت دیتا ہے۔
میڈیا کی اس محقق اور لیکچرر نے مزید کہا: مغربی میڈیا کا بنیادی ہدف مادیت پرستی، خودغرضی، اور انانیت کو فروغ دینا ہے، جو "میں مصرف کرتا ہوں، پس میں ہوں" جیسے طرزِ فکر کو تقویت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا: آج کی دنیا میں میڈیا جنگ کی حکمت عملیوں کو سمجھنا اور اس کے ذریعے عوام کو باخبر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ میڈیا خواندگی کی تحریک کے اہم فوائد میں سے ایک ہے جو لوگوں کو صحیح اور غلط خبروں میں فرق کرنے اور نفسیاتی آپریشنز کی چالوں کو سمجھنے کے قابل بناتا ہے۔
ڈاکٹر نصیری نے مغربی میڈیا اور خواتین کا کردار کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا: مغربی میڈیا خواتین کو اکثر صارفیت کے فروغ اور اقتصادی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایسے میں خواتین کو اپنی معلومات کے دانشمندانہ استعمال، تربیت، اور اثراندازی کے ذریعے اپنے کردار کو مثبت طور پر بدلنا چاہیے۔
انہوں نے اسلامی نظریہ میں خواتین کے مقام کو بیان کرتے ہوئے مزید کہا: دینی اسلام میں خواتین کو بلند مقام حاصل ہے، جہاں انہیں معاشرتی اور خاندانی نظام میں تربیت اور رہنمائی کے لیے اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ دینی تعلیمات خواتین کو ایسی تعلیم دیتی ہیں جو انہیں مصنوعی جذبات، بے لگام خواہشات، اور غیر حقیقی توقعات سے بچاتی ہے۔
ڈاکٹر نصیری نے کہا: اگر خواتین میڈیا کے غلط اثرات کو پہچان کر خودمختاری کے ساتھ معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں تو ایک متوازن، پائیدار، اور اخلاقی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر اس بات پر زور دیتا ہے کہ خواتین کو شعور اور بصیرت کے ساتھ سماجی نظام کی رہنمائی کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی نقطہ نظر سے خواتین کا کردار محض ان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے کی تعمیر میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔